Nations are built through education, knowledge and excellent training. Only those who want to move towards success succeed. Success never comes to those who do not believe in hard work and struggle. Hard work and struggle take you to success and heights. Success and heights of any nation are possible only when its new generation, when its children are educated with rare and high education.
As a teacher, I have spent about 17 years of my life in teaching and I always try to make the students understand well and I also take a weekly test of that chapter after we complete it. As a teacher, I consider it my duty to educate the children, train them mentally, morally and make them good members of the society. Today, when I entered the classroom, the topic of my lesson was Past Simple Tense. I consider Past Simple Tense to be a difficult tense because the second form of the verb is used in this tense. But sometimes children find it difficult to understand that when they are told the second form of the verb, when the helping verb is used and the sentence is negative or interrogative, the second form of the simple past tense is not used in it. Thus, children find it very difficult to understand the simple past tense because children who are reading and writing Urdu and their mother tongue is Saraiki or Punjabi During the time they spend in school, they learn to read and write English, but it becomes very difficult for them to understand its pronunciation and tenses. So I try to explain it to the children in a simple way and in simple words so that the children can understand it easily. A teacher has a responsibility to make their class do practical work every day and to make the children accustomed to doing practical work. So I practically try to make the children do practically whatever work, whether it is homework or a class test, so today I have made some pictures during the class. I hope you like it.
بطور استاد میں نے اپنی زندگی کے تقریبا 17 سال ٹیچنگ میں گزار دیے ہیں اور میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ طالب علموں کو اچھے طریقے سے سمجھا سکوں اور جو بھی چیپٹر ہم کمپلیٹ کریں تو اس چیپٹر کا میں ہفتہ وار ٹیسٹ بھی لیتا ہوں بطور ٹیچر میں یہ فرض سمجھتا ہوں کہ بچوں کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی تربیت اخلاقی تربیت اور معاشرے کا ایک بہترین فرد بنانا بھی میری ڈیوٹیز میں شامل ہے اج جب میں کلاس روم میں داخل ہوا تو میرے لیسن کا موضوع تھا پاسٹ سمپل ٹینس پاسٹ سمپل ٹینس کو میں سمجھتا ہوں کہ ایک مشکل ٹینس ہے کیونکہ اس ٹینس میں ورب کی سیکنڈ فارم استعمال ہوتی ہے لیکن سم ٹائم بچے یہ سمجھنا مشکل محسوس کرتے ہیں کہ ان کو جب ورب کی سیکنڈ فارم بتائی جاتی ہے تو جب ہیلپنگ ورب کا یوز بتایا جاتا ہے اور فقرہ نیگٹو یا سوالیہ ٹائپ کا ہو تو اس میں سمپل پاسٹ ٹینس کی سیکنڈ فارم یوز نہیں ہوتی ہے تو اس طرح بچوں کو بہت زیادہ سمپل پاس ٹینس کو سمجھنے میں دقت محسوس ہوتی ہے کیونکہ جو بچے اردو زبان پڑھتے لکھتے ارہے ہوں اور ان کی مادری زبان سرائکی پنجابی ہو تو وہ سکول میں جو وقت گزارتے ہیں اس وقت کے دوران وہ انگلش پڑھنا لکھنا تو سیکھ جاتے ہیں لیکن ان کی بول چال اور ٹینسز کو سمجھنا ان کے لیے قدر مشکل ہو جاتا ہے تو میں کوشش کرتا ہوں کہ بچوں کو اس طرح سادہ طریقے اور اسان الفاظ میں سمجھاؤں تاکہ بچے اسانی سے سمجھ جائیں تو ٹیچر کی ایک ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے کلاس کو روز پریکٹیکلی ورک رہے اور بچوں کو پریکٹیکل ورک کرنے کا عادی بنائیں تو میں پریکٹیکلی کوشش کرتا ہوں کہ بچوں کو جو بھی کام ہوم ورک کا کلاس ٹیسٹ ہو تو پریکٹیکلی بچے کرتے ہیں تو اج میں نے کچھ تصاویر بنائی ہیں کلاس کے دوران امید ہے اپ کو پسند ا
The teaching field is a difficult field because teaching is not about teaching, but rather teaching is about developing a nation because the students we have are completely blank, their minds are empty and they are like white paper and whatever a teacher writes on that paper is their future. So I believe that a great teacher develops a great nation and a great nation is developed only when a teacher is sincere about his field.
ٹیچنگ کا شعبہ ایک مشکل شعبہ ہے کیونکہ ٹیچنگ سے پڑھانے کا نام نہیں ہے بلکہ ٹیچنگ ایک قوم تیار کرنے کا نام ہے کیونکہ ہمارے پاس جو طالب علم اتے ہیں وہ بالکل بلینک ہوتے ہیں ان کا دماغ خالی ہوتا ہے اور وہ سفید کاغذ کی طرح ہوتے ہیں اور ایک ٹیچر اس کاغذ کے اوپر جو کچھ لکھتا ہے وہی ان کا مستقبل ہوتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ایک بہترین ٹیچر ایک بہترین قوم تیار کرتا ہے اور بہترین قوم اسی وقت تیار ہوتی ہے جب ایک ٹیچر اپنے شعبے سے مخلص ہوگا
Some children come to schools from families whose parents are not educated, in fact, many children's parents do not even know how to read and write. Such children need more attention because such children are not used to reading and writing in their home environment. They are not interested in doing class and school homework. Such children are prepared mentally every day. They are informed about the importance of studying so that they can become good citizens by reading and writing. The parents of such children are called to school from time to time and are asked to keep an eye on their children and see whether their children come home with schoolwork every day. In this way, we often assign this duty to teachers that children whose parents are not educated are given more attention and focus so that they can focus more on their studies. I have learned in my teaching life that only a teacher is successful who sees the quality of his students in his class. I believe that a teacher has a duty to treat every student equally whenever he or she goes to class and to pay maximum attention to the children who are good at studies and give them as much work as they can handle. Similarly, children who are mentally weak or weak in studies or whose background is not academic should be encouraged to study by doing a little homework. I always say that a person learns to read and write practically. When you tell the children in class that the lesson we studied the previous day and those children teach this lesson themselves, they will be able to understand it better. So in my class, children become teachers. I make them teachers so that they can teach as teachers and in this way their mental abilities come to the fore.
کچھ بچے سکولوں میں ایسے گھرانوں سے بھی اتے ہیں جن کے والدین پڑھے لکھے نہیں ہوتے بلکہ بہت سے بچوں کے والدین لکھنا پڑھنا تک نہیں جانتے تو ایسے بچوں کو زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ایسے بچے اپنے گھر کے ماحول میں پڑھنے لکھنے کے عادی نہیں ہوتے تو وہ کلاس اور سکول کا ہوم ورک کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے تو ایسے بچوں کو روزانہ ان کی ذہنی طور پر ان کو تیار کیا جاتا ہے ان کو پڑھائی کی امپورٹنس کے متعلق اگاہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ پڑھ لکھ کر ایک اچھے شہری بن جائیں ایسے بچوں کے والدین کو سکول میں وقتا فوقتا بلایا جاتا ہے اور ان کو کہا جاتا ہے کہ وہ بچوں کے کے اوپر نظر رکھیں اور یہ روزانہ دیکھیں کہ ان کے بچے روزانہ سکول ورک کر کے اتے ہیں یا نہیں اتے اس طرح ہم اکثر ٹیچرز کی یہ ڈیوٹی لگاتے ہیں کہ ایسے بچے جن کے والدین پڑھے لکھے نہیں ہوتے تو ان پر زیادہ توجہ اور ان پر زیادہ فوکس کیا جاتا ہے تاکہ وہ پڑھائی پر زیادہ سے زیادہ توجہ دے سکیں میں نے اپنی ٹیچنگ لائف میں یہ سیکھا ہے کہ وہی ٹیچر کامیاب ہوتا ہے جو اپنے کلاس میں اپنا اسٹوڈنٹ کے معیار کو دیکھ کر ان کو پڑھاتا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ایک ٹیچر کی ایک ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ جب بھی کلاس میں جائے تو ہر طالب علم کو ایکولی ٹریٹ کریں اور جو بچے پڑھائی میں اچھے ہیں ان پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیں اور ان کو زیادہ سے زیادہ ورک دے جو وہ برداشت کر سکے اسی طرح جو بچے ذہنی طور پر کمزور ہوں یا پڑھائی میں کمزور ہوں یا جن کا بیک گراؤنڈ پڑھائی والا نہ ہو تو ان کو تھوڑا تھوڑا سا ہوم ورک دیکھ کر پڑھائی کی طرف مائل کیا جائے میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ پڑھنا لکھنا انسان پریکٹیکلی سیکھتا ہے جب اپ بچوں کو کلاس میں یہ کہیں گے کہ جو لیسن ہم نے سابقہ دن پڑھا تھا اور وہ بچے اس لیسن کو خود ٹیچ کریں خود ٹیچر بن کر پڑھیں تو وہ اور زیادہ اچھے طریقے سے سمجھ سکیں گے تو میری کلاس میں بچے ٹیچر بن جاتے ہیں میں ان کو ٹیچر بنا دیتا ہوں تاکہ وہ ٹیچر بن کر ٹیچ کریں اور اس طرح ان کی ذہنی صلاحیتیں نکھر کر سامنے اتی ہیں
میرے اج کا ارٹیکل لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ میں اپنے خیالات اپنے احساسات بطور ٹیچر اپ کے ساتھ شیئر کر سکوں کیونکہ ہر شخص اپنی ذات میں ایک ٹیچر ہے اور ایک طالب علم ہے میں طالب علمی بھی ہوں میں ٹیچر بھی ہوں میں ایک رہنما بھی ہوں اور اسی طرح میرے بچے میز طالب علم وہ بھی ٹیچر ہیں وہ بھی رہنما ہیں وہ بھی کسی نہ کسی شعبے میں جا کر اپنی خدمات شرم انجام دیں گے ہم سب ہر ایک شخص ٹیچر بھی ہے کیونکہ والد اپنے بچوں کو ٹچ کرتا ہے علاقے کا سمجھدار ذہین شخص اپنے علاقے کے لوگوں کو لیڈ کرتا ہے اسی طرح کسی قوم کسی خاندان کا سینیئر شخص اپنے خاندان کی رہنمائی کرتا ہے اسی طرح ہر خاندان میں بچے ہوتے ہیں اور وہ بچے بڑے ہو کر اپنے خاندان کے سربراہ بنتے ہیں اسی طرح جو میری کلاس میں اج سٹوڈنٹ بیٹھے ہیں وہ انے والے دنوں میں ایک کامیاب انسان ہوں گے ان میں سے کچھ طالب علم ٹیچنگ کے شعبے میں ائیں گے کچھ بینکنگ کی طرف جائیں گے کچھ انٹرنیٹ اور ان لائن اور کمپیوٹر کے میدان میں کامیابیاں حاصل کریں گے اسی طرح میرا ہر طالب علم اپنی قوم اور اپنے ملک اور اپنے علاقے اور اپنی کمیونٹی کے لیے ایک اہم فرد بن کر سامنے ائے گا تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ میرے بچے انے والا مستقبل ہے اور ہر قوم کا بچہ ہر ملک کا بچہ اپنے ملک اور قوم کے لیے ایک ہیرا ہے وہ ہیرے ہم نے تراشنے ہیں اور ان کو کندن بنانا ہے اور کندن بنا کر ان کو ایسا شخص بنانا ہے تاکہ وہ اپنی قوم ملک اور پوری دنیا کے انسانوں کے لیے اصلاح کر سکے اور ان کی بھلائی کے لیے کام کر سکیں امید ہے اپ کو میرا اج کا یہ ارٹیکل ضرور پسند ائے گا بہت بہت شکریہ
The purpose of writing my article today was to share my thoughts and feelings as a teacher with you because every person is a teacher and a student in his own right. I am also a student. I am also a teacher. I am also a leader. Similarly, my children, students, they are also teachers. They are also leaders. They will also serve in some field or the other. We are all teachers because a father touches his children. A wise and intelligent person of the area leads the people of his area. Similarly, a senior person of a nation or a family leads his family. Similarly, every family has children and those children grow up and become the heads of their families. Similarly, the students sitting in my class today will be successful people in the coming days. Some of these students will come to the teaching field, some will go towards banking, some will achieve success in the field of internet and online and computers. Similarly, each of my students will emerge as an important person for their nation, their country, their region and their community. So I believe that this is my child, the future, and the child of every nation, the child of every country, is a diamond for his country and people. We have to carve those diamonds and make them into gems, and by making them gems, we have to make them into such a person that they can reform their nation, country and the people of the whole world and work for their good. I hope you will definitely like my article today. Thank you very much.