Since childhood, we have been taught to respect our elders, show kindness to those younger than us, and care for the elderly. These lessons and pieces of advice often felt burdensome at the time. But we rarely consider that our parents, in subtle ways, do all of this to shape us into useful members of society. It’s only when we encounter someone who treats us kindly that we feel admiration for their parents' upbringing.
بچپن سے ہی ہمیں سکھایا اور سمجھایا جاتا ہے کہ بڑوں کا ادب کیا جائے. چھوٹوں پر شفقت کی جائے. بزرگوں کا خیال رکھا جائے وغیرہ. یہ باتیں اور نصیحتیں ہمیں تب بوجھ محسوس ہوا کرتی تھیں. لیکن کبھی ہم یہ نہیں سوچتے کہ ہمارے والدین غیر محسوس طریقے سے ہمیں معاشرے کے لیے ایک کارگر فرد بنانے کے لیے یہ سب کچھ کرتے ہیں. پھر جب کبھی زندگی میں ایسا موقع میسر آجاتا ہے، کسی کو اپنے ساتھ بھلائی کرتا دیکھتے ہیں تو ان کے والدین کی تربیت پر رشک کرتے ہیں.
Wearing Helmets is Essential:
One night, around 11:30 PM, my friend and I were returning home. We had been to a library, and our return was delayed. Since our homes were nearby, we decided to take a shortcut to get home quickly. The route we chose included a military colony. While it is mandatory by traffic laws to wear helmets while riding a bike, the traffic police in the city aren't too strict. People often get away with not wearing helmets by paying a small bribe. However, since this was a military colony, the rules were more strictly enforced. Normally, we didn’t bother much about wearing helmets late at night because there were rarely any security personnel or police officers around. Sometimes we wore helmets, and other times we didn’t.
ہیلمٹ لازمی پہنیں:
اب قصہ کچھ یوں ہوا تھا کہ میں اپنے دوست کے ساتھ رات ساڑھے 11 بجے کے قریب گھر واپس آ رہا تھا. ہم ایک لائبریری گئے ہوئے تھے. جہاں سے واپسی پر ہمیں بہت تاخیر ہو گئی. ہمارے گھر قریب قریب تھے سو ہم نے مختصر راستہ سے جانے کا سوچا تاکہ جلد از جلد گھر پہنچا جا سکے. جس راستے کا ہم نے انتخاب کیا، اس میں ایک سرکاری ملٹری کالونی بھی شامل تھی. اب ویسے تو پورے شہر میں بلکہ ٹریفک کے قوانین کے مطابق بھی بائیک چلاتے وقت ہیلمٹ پہننا لازم ہوتا ہے لیکن شہر میں موجود ٹریفک پولیس زیادہ سختی نہیں کرتی، بلکہ کچھ لین دین کرکے لوگ بآسانی چھوٹ جاتے ہیں. لیکن یہ چونکہ ایک ملٹری کالونی تھی، اس لیے اس میں پابندی ذرا زیادہ سخت تھی. اب چونکہ اکثر رات کو سیکیورٹی یا پولیس والے موجود نہیں ہوتے تو اس لیے ہم ہیلمٹ کی زیادہ پابندی نہیں کرتے. کبھی پہنا ہوا ہو تو بھی ٹھیک اور اگر اتار کر رکھا ہوا ہو تو اسی طرح چلے جاتے ہیں.
Interrogation:
One night, as we entered the colony around 11:30 PM, there was a chief officer on duty at the checkpoint. He had already stopped three other bikers before us and was questioning them. The first and most common offense was not wearing helmets. During the interrogation, it was revealed that some didn’t have their vehicle’s documents, while others lacked a driving license. Various excuses were being made. As we approached the checkpoint, a soldier stopped us and asked us to pull over. Initially, I thought about apologizing, but then decided to wait until they dealt with the other bikers first.
One of the boys they had stopped had a bike that didn’t even require a key to start. His bike had no keys, no number plate, and he was clearly under 18. We thought for sure he’d be taken to the check post, since there was no way out for him. Another boy didn’t have an entry pass for the colony, so his vehicle was also about to be seized. Just then, the chief officer intervened and, turning towards us, said, "You all are educated, sensible people. If you break the law by not wearing helmets, how can we expect others to follow the rules?" He was absolutely right. Each one of us was either in university or at least in college. My friend, who was with me, was my classmate, The chief officer, noticing him, said, "If I ask this gentleman about his education, I bet he’s more qualified than I am." He then immediately asked a question and my friend’s response left the chief officer stunned.
تفتیش:
اتفاقاً ایک دن جب ہم واپس کالونی میں پہنچے تو رات کے ساڑھے 11 بجے بھی چوک پر ایک چیف صاحب ڈیوٹی پر تھے. انہوں نے ہم سے قبل 3 اور بائیکس والوں کو روکا ہوا تھا. ان سے تفتیش جاری تھی. پہلا اور مشترک جرم تو ہیلمٹ نہ پہننا تھا. پھر تفتیش کے دوران پتہ چلتا کہ گاڑی کے کاغذات بھی نہیں ہیں، ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں ہے، اسی طرح مختلف قسم کے حیلے بہانے سامنے آجاتے. ہم جب موڑ سے گزرنے لگے تو فوراً ایک سپاہی نے آگے بڑھ کر ہمارا راستہ روکا اور ہمیں بائیک سائیڈ پر لگانے کا کہا. پہلے پہل خیال آیا کہ معذرت کر لی جائے مگر پھر سوچا کہ پہلے انہیں دیگر لڑکوں سے ڈیل کر لینے دیں پھر میں بات کرتے ہوں. ہم سے پہلے جن لڑکوں کو انہوں نے پکڑا تھا ان میں سے ایک کی بائیک تو ایسی تھی جو ڈائریکٹ تھی یعنی چابی کے بغیر چلتی تھی. نہ اس کے پاس چابیاں تھیں نہ نمبر پلیٹ. اور تو اور اس لڑکے کی عمر بھی 18 سے کم تھی. ہم نے سوچا کہ یہ تو پکا اب چیک پوسٹ پر جائے گا، کیونکہ بچنے کی صورت ہی کوئی نہیں تھی. دو لڑکے ایسے تھے جن میں سے ایک کے پاس کالونی کا انٹری پاس نہیں تھا.
ان کی بھی گاڑی ضبط ہونے ہی والی تھی. اتنے میں اہلکار کو چیف صاحب نے روکا اور ہماری جانب متوجہ ہو کر چیف صاحب کہنے لگے: آپ سب ماشاءاللہ سمجھدار پڑھے لکھے آدمی ہیں. آپ لوگ اگر ہیلمٹ نہ پہن کر قانون شکنی کریں گے تو ہم کسی اور سے کیا گلہ کریں گے؟ واقعی ان کی بات بجا تھی. ہم میں سے ہر ایک یا تو یونیورسٹی کا پڑھا ہوا تھا، یا کم از کم کالج میں تھا. میرے ساتھ میرا ہم جماعت ساتھی تھا. اسے دیکھ کر چیف صاحب گویا ہوئے: اب ان حضرت سے میں اگر تعلیم پوچھوں گا تو یہ مجھ سے بھی زیادہ پڑھے لکھے ہوں گے. چنانچہ انہوں نے یہ کہتے ہی سوال داغ دیا. میرے دوست کے جواب دینے پر وہ یکدم حیرت زدہ ہو گئے.
A Remarkable Warning:
My friend simply said that he had completed Dars-e-Nizami (an Islamic Scholar course of study). He was also a university graduate, but before he could mention that, the chief officer asked, "Have you also memorized the Quran?" My friend replied, "Yes, I have." Upon hearing this, the officer immediately lowered his head in respect and said, "Sir, you may go! You are such an honorable person. It is not right to stop someone like you. Allah has blessed you with such a high status. Perhaps treating you well might bring us blessings as well."
Not only did he let us go with great respect, but he also released the others, whose bikes were certainly about to be seized, saying, "You may all leave too, thanks to the blessing of Hafiz Sahib (my friend). You are all very honorable in our eyes. We wouldn’t dare to trouble you."
We both shook hands with the officers and moved ahead, feeling both embarrassed by our mistake and deeply touched by their respect and devotion. Perhaps they will be rewarded in the afterlife for their display of honor. They could have legally held us accountable because, after all, it was our fault. I’m not debating whether letting us go despite being guilty was right or wrong. However, I will say this: they left an indelible example of respect and honor on our minds. When I got home, I offered a special prayer for them. Perhaps we will never meet those officers again, but the lesson they left with us is one that no ticket or fine could have taught. If they had issued a challan, we would have paid it and moved on. But ever since that night, whether it’s day or night, a short trip or a long one, we always wear our safety helmets while riding on motor bike.
بے مثال تنبیہ:
میرے دوست نے بس اتنا کہا کہ انہوں نے درس نظامی (ایک اسلامی عالم کا نصاب) مکمل کیا ہے۔ وہ یونیورسٹی سے بھی فارغ التحصیل ہیں، مگر اس کے بتانے سے پہلے ہی چیف صاحب نے پوچھا:حفظ بھی کیا ہے؟ میرے دوست نے کہا: جی ہاں. بالکل. یہ سنتے ہی فوراً احترام سے چیف صاحب نے سر جھکایا اور کہنے لگے: سر آپ جائیں! آپ اتنے معزز آدمی ہیں. آپ کو روکنا کسی طور بھی مناسب نہیں. آپ کو اللہ پاک نے اتنا بڑا مقام دیا ہے. شاید آپ کے ساتھ حسن سلوک کی برکت سے ہماری بھی نجات ہو جائے.
نہ صرف انہوں نے ہمیں بڑے ادب و احترام سے جانے دیا بلکہ باقی سب کو بھی چھوڑ دیا جن کی بائکیں یقینی طور پر ضبط ہو چکی تھیں کہ حافظ صاحب کی برکت سے آپ سب بھی جائیں. ہمارے لیے آپ بہت زیادہ معزز ہیں. ہم آپ کو زحمت دینے کا سوچ بھی نہیں سکتے.
ہم دونوں افسران سے ہاتھ ملاتے ہوئے آگے بڑھ گئے. دل ہی دل میں شرمندہ بھی تھے اپنی غلطی پر. مگر ان کے جذبے اور عقیدت نے ہمیں بہت حیران کر دیا. شاید وہ اس احترام کا صلہ جنت میں ہی پائیں گے. وہ چاہتے تو ہمیں قانونی طور پر پکڑ سکتے تھے. کیونکہ غلطی تو بہرحال ہماری تھی. میں اس پر کلام نہیں کر رہا کہ آیا ان کا ہمیں مجرم ہونے کے باوجود چھوڑنا ٹھیک تھا یا غلط. مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ انہوں نے ادب و تعظیم کی لازوال مثال ہمارے ذہنوں پر نقش کر دی ہے. میں نے گھر جا کر اسپیشل ان کے لیے دعا کی. شاید ہم ان سپاہیوں اور افسروں سے کبھی دوبارہ نہ مل سکیں مگر جو سبق انہوں نے ہمیں چھوڑ کر دیا، چالان کے ذریعے کبھی بھی نہیں دے سکتے تھے. اگر وہ چالان کاٹتے تو وقتی طور پر بھر کر ہم اپنی راہ لے لیتے مگر اس دن کے بعد سے رات ہو یا دن. چاہے دو منٹ کا سفر ہو یا دور کا، ہیلمٹ ہمیشہ پہن کر سفر کرتے ہیں.